نہ پوچھئے جو شبِ غم مزا لیا میں نے
تمہاری یاد میں دل کو جلا لیا میں نے
تمہارے عشق سے اے دوست! آشنا تھا مگر
اک اور تیر کلیجے پہ کھا لیا میں نے
نہ پوچھئے کہ وہ کتنے خفا ہوئے مجھ پر
بتاؤ کون سے گوشے میں گھٹاؤ تم
اٹھو کہ جام لبوں سے لگا لیا میں نے
تمہارے عشق میں اتنا جنوں ہوا مجھ کو
گلوں کا حسنِ تبسم چرا لیا میں نے
ستم کہ دیکھ لیا اک نظر خلشؔ ان کو
غضب کہ آپ ہی فتنہ جگا لیا میں نے
خلش دہلوی
No comments:
Post a Comment