آنکھوں سے مست کر دے دل کے الم مٹا دے
ساقی خفا نہ ہو تو تھوڑی سے مئے پلا دے
عادت نہیں ہے پھر بھی قائل ہوں مئے کشی کا
بس شوق ہے کہ ساغر ہونٹوں سے تُو لگا دے
آبِ حیات لا تُو ساغر میں گھول کر اب
اس زندگی کا کیا ہے، جانے سحر کہاں ہے
کھوئے ہیں شامِ غم میں تُو راستہ دکھا دے
تشنہ خلشؔ نہ اٹھے، رُسوا کہیں نہ ہو تُو
رحمت کا آج دریا ساقی مِرے بہا دے
خلش دہلوی
No comments:
Post a Comment