مے بھی ہے مِینا بھی ہے محفل بھی ہے اور شام بھی
پر انتظار میں تِری، خالی رہا یہ جام بھی
ہے وصل کا وعدہ تِرا، آ جا سحر قریب ہے
جاگی ہوئی ہیں مستیاں، سوئی ہوئی ہے شام بھی
قاصد بھی نہ آیا اِدھر، نہ بات ہی پہنچی اُدھر
نہ دَم مِرا نکل سکا، نہ تُو ہی ہمنوا بنا
یادوں میں تیری جل گئے شاعر بھی اور کلام بھی
بے زار کیوں خلشؔ ہے تُو ماحول روٹھا دیکھ کر
مانا خزاں میں گھِر گئے ساقی بھی اور جام بھی
خلش دہلوی
No comments:
Post a Comment