Friday, 2 October 2015

بن بلائے کہاں وہ آتے ہیں

بِن بلائے کہاں وہ آتے ہیں
اور بلائیں تو روٹھ جاتے ہیں
حال دل کا عیاں نہیں کرتے
زخم کھا کے بھی مسکراتے ہیں
وہ سفینے کہاں ابھرتے ہیں
بحرِ غم میں جو ڈوب جاتے ہیں
اہلِ گلشن کا یہ جنوں دیکھو
آپ اپنا چمن جلاتے ہیں
اپنی بربادیوں کے افسانے
خود زمانے کو ہم سناتے ہیں
شیخ! رُسوا ہمیں فضول نہ کر
ہم تو پیتے نہیں، پلاتے ہیں
تو خلشؔ کیا ہے راہِ الفت میں
پاؤں رہبر کے لڑکھڑاتے ہیں

خلش دہلوی

No comments:

Post a Comment