Monday, 5 October 2015

پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی

پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی
میں تو سمجھا تھا کہ اک میری ہی گویائی گئی
پھر وہی بادل کہ جی اڑنے کو چاہے جن کے ساتھ
پھر وہی موسم کہ جب زنجیر پہنائی گئی
پھر وہی طائر وہی ان کی غزل خوانی کے دن
پھر وہی رُت جس میں میری نغمہ پیرائی گئی
کچھ تو ہے آخر جو سارا شہر تاریکی میں ہے
یا مِرا سورج گیا، یا میری بینائی گئی
تھم گئے سب سنگ، سب شورِ ملامت رُک گیا
میں ہی کیا جی سے گیا، ساری صف آرائی گئی
پوچھتی ہے دستکیں دے کے شوریدہ ہوا
کس کا خیمہ تھا کہ جس میں روشنی پائی گئی

رضی اختر شوق

No comments:

Post a Comment