پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی
میں تو سمجھا تھا کہ اک میری ہی گویائی گئی
پھر وہی بادل کہ جی اڑنے کو چاہے جن کے ساتھ
پھر وہی موسم کہ جب زنجیر پہنائی گئی
پھر وہی طائر وہی ان کی غزل خوانی کے دن
پھر وہی رُت جس میں میری نغمہ پیرائی گئی
کچھ تو ہے آخر جو سارا شہر تاریکی میں ہے
یا مِرا سورج گیا، یا میری بینائی گئی
تھم گئے سب سنگ، سب شورِ ملامت رُک گیا
میں ہی کیا جی سے گیا، ساری صف آرائی گئی
پوچھتی ہے دستکیں دے کے شوریدہ ہوا
کس کا خیمہ تھا کہ جس میں روشنی پائی گئی
میں تو سمجھا تھا کہ اک میری ہی گویائی گئی
پھر وہی بادل کہ جی اڑنے کو چاہے جن کے ساتھ
پھر وہی موسم کہ جب زنجیر پہنائی گئی
پھر وہی طائر وہی ان کی غزل خوانی کے دن
پھر وہی رُت جس میں میری نغمہ پیرائی گئی
کچھ تو ہے آخر جو سارا شہر تاریکی میں ہے
یا مِرا سورج گیا، یا میری بینائی گئی
تھم گئے سب سنگ، سب شورِ ملامت رُک گیا
میں ہی کیا جی سے گیا، ساری صف آرائی گئی
پوچھتی ہے دستکیں دے کے شوریدہ ہوا
کس کا خیمہ تھا کہ جس میں روشنی پائی گئی
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment