Monday, 5 October 2015

بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غمگساری تھی

بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غم گساری تھی
وہ آنکھ پھر تو ہر اک کیفیت سے عاری تھی
نہ جانے آج ہواؤں کی زد پہ کون آیا
نہ جانے آج کی شب کس دِیے کی باری تھی
ذرا سی دیر کو چمکی تو تھی غنیم کی تیغ
سوادِ شہر میں پھر روشنی ہماری تھی
حریف تیغ سے میں اپنی آگہی سے لڑا
یہ عدل وقت کرے، کس کی ضرب کاری تھی
سفر سے لَوٹے تو جیسے یقیں نہیں آتا
کہ ساری عمر اسی شہر میں گزاری تھی
دلوں کے کھیل بھی کیسے عجیب کھیل ہیں شوق
کہ میں اداس تھا، بازی کسی نے ہاری تھی

رضی اختر شوق

No comments:

Post a Comment