بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غم گساری تھی
وہ آنکھ پھر تو ہر اک کیفیت سے عاری تھی
نہ جانے آج ہواؤں کی زد پہ کون آیا
نہ جانے آج کی شب کس دِیے کی باری تھی
ذرا سی دیر کو چمکی تو تھی غنیم کی تیغ
سوادِ شہر میں پھر روشنی ہماری تھی
حریف تیغ سے میں اپنی آگہی سے لڑا
یہ عدل وقت کرے، کس کی ضرب کاری تھی
سفر سے لَوٹے تو جیسے یقیں نہیں آتا
کہ ساری عمر اسی شہر میں گزاری تھی
دلوں کے کھیل بھی کیسے عجیب کھیل ہیں شوق
کہ میں اداس تھا، بازی کسی نے ہاری تھی
وہ آنکھ پھر تو ہر اک کیفیت سے عاری تھی
نہ جانے آج ہواؤں کی زد پہ کون آیا
نہ جانے آج کی شب کس دِیے کی باری تھی
ذرا سی دیر کو چمکی تو تھی غنیم کی تیغ
سوادِ شہر میں پھر روشنی ہماری تھی
حریف تیغ سے میں اپنی آگہی سے لڑا
یہ عدل وقت کرے، کس کی ضرب کاری تھی
سفر سے لَوٹے تو جیسے یقیں نہیں آتا
کہ ساری عمر اسی شہر میں گزاری تھی
دلوں کے کھیل بھی کیسے عجیب کھیل ہیں شوق
کہ میں اداس تھا، بازی کسی نے ہاری تھی
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment