Saturday, 3 October 2015

وہ شخص تو مجھے حیران کرتا جاتا تھا

وہ شخص تو مجھے حیران کرتا جاتا تھا
کہ زخم دے کے مجھے ان کو بھرتا جاتا تھا
دریچہ کھولتے جو ہاتھ ان میں تھی زنجیر
گلی سے ایک مسافر گزرتا جاتا تھا
بنائے جاتا تھا میں اپنے ہاتھ کو کشکول
سو میری روح میں خنجر اترتا جاتا تھا
اسے ملال سے تکتی تھیں گاؤں کی گلیاں
وہ نغمہ گر جو سیئے لب گزرتا جاتا تھا
بنائے جاتا تھا اس کو حسیں نجانے کون
بدن وہ پھول نہ تھا اور نکھرتا جاتا تھا
تلاشِ زر میں جواں کوچ کرتے جاتے تھے
کمالؔ گاؤں کا سب حسن مرتا جاتا تھا

حسن اکبر کمال​

No comments:

Post a Comment