رات فلک پر رنگ برنگی آگ کے گولے چھُوٹے
پھر بارش وہ زور سے برسی مہک اُٹھے گل بُوٹے
اُس کی آنکھ کے جادُو کی ہر ایک کہانی سچی
میرے دل کے خُوں ہونے کے سب فسانے جھُوٹے
پہلے پہل تو جی نہ لگا پردیس کے اِن لوگوں میں
یہ تو سچ ہے سب نے مِل کر دِلجوئی بھی کی تھی
اَپنی رُسوائی کے مزے بھی سب یاروں نے لُوٹے
میں جو منیرؔ اِک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا
اُس کی چِق کی تِیلوں سے ریشم کے شگُوفے پھُوٹے
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment