Saturday, 3 October 2015

ہے مہرباں کبھی ناآشناؤں جیسا ہے

ہے مہرباں، کبھی ناآشناؤں جیسا ہے
مزاج اس کا عجب دھوپ چھاؤں جیسا ہے
جو رات ہو تو پیکر شعاؤں جیسا ہے
غموں کی دھوپ اگر ہو تو چھاؤں جیسا ہے
برس رہا ہے مگر تشنگی نہیں بجھتی
میں رہگزر ہوں اور وہ گھٹاؤں جیسا ہے
تِرے خیال سے بچ کر بتا کہاں جاؤں
یہاں سکوت بھی تیری صداؤں جیسا ہے
کمال میں اسے کس دل سے بیوفا کہہ دوں
وہ بے وفا تو نہیں، بے وفاؤں جیسا ہے

حسن اکبر کمال​

No comments:

Post a Comment