آج بھی تیری ہی صورت ہے مقابل میرے
یہ بھی اک عشق کا انداز ہے قاتل میرے
تیرا محرومِ محبت ہوں، سو واپس نہ گیا
بے محبت کبھی در سے کوئی سائل میرے
حسنِ بیمار تجھے پھول دئیے ہیں میں نے
ان میں ہونے تھے مگر زخم بھی شامل میرے
اور میں ہوں کہ سفر پھر بھی کیے جاتا ہوں
سائے کی طرح تعاقب میں ہے منزل میرے
میں سمندر کے تلاطم سے کچھ سیکھتا ہوں
اسی تقصیر پہ دشمن ہوئے ساحل میرے
آج آرائشی زنجیر ہے گردن میں کمالؔ
کبھی ہتھیار گلے میں تھے حمائل میرے
یہ بھی اک عشق کا انداز ہے قاتل میرے
تیرا محرومِ محبت ہوں، سو واپس نہ گیا
بے محبت کبھی در سے کوئی سائل میرے
حسنِ بیمار تجھے پھول دئیے ہیں میں نے
ان میں ہونے تھے مگر زخم بھی شامل میرے
اور میں ہوں کہ سفر پھر بھی کیے جاتا ہوں
سائے کی طرح تعاقب میں ہے منزل میرے
میں سمندر کے تلاطم سے کچھ سیکھتا ہوں
اسی تقصیر پہ دشمن ہوئے ساحل میرے
آج آرائشی زنجیر ہے گردن میں کمالؔ
کبھی ہتھیار گلے میں تھے حمائل میرے
حسن اکبر کمال
No comments:
Post a Comment