Wednesday, 7 October 2015

اک اور اندھا کباڑی

اِک اور اندھا کباڑی

خواب اٹھائے کیا پھِرتے ہو
خواب کے گاہک کب آئیں گے
خواب کباڑ ہیں
سخت پہاڑ ہیں
خواب اٹھائے کیا پھِرتے ہو
کیوں پھِرتے ہو

تم جو زمانہ دیکھ رہے ہو
یہ بازار ضرور ہے لیکن
اس کا نظم و طور جدا ہے
اس کا اپنا دین، پیمبر اور خدا ہے
یہاں پہ کاروبار جمانا چاہتے ہو تو عورت بیچو
عورت سب سے مہنگے داموں میں بکتی ہے
وہ جس کو چیز کو چھُو لیتی ہے اس کو سونا کر دیتی ہے
اس کی چھُوَن کو ڈھال بناؤ
جتنا چاہے مال بناؤ
صابن بیچنا ہو تو اس کے گال دکھاؤ
شیمپو بیچنا ہو تو اس کے بال دکھاؤ
روحوں کی بدبُو کو گھٹانے والی
تن مہکانے والی
خوشبو بیچنی ہو تو اس کا جسم دکھاؤ
اس کے سارے طلسم دکھاؤ
سوئمنگ پول میں اس کے برہنہ جسم پہ پانی کی
لرزش کرتی بوندوں کی جھلمل کو ہتھیار بناؤ
ایک اور دو کے چار بناؤ
عورت لے لو
شاپنگ مال میں یہ آواز لگا کر دیکھو
کتے، سور، گدھ اور کاگے
سب آئیں گے اڑتے بھاگے
دانت چباتے
رال گِراتے
گھٹنوں تک جیبیں لٹکاتے
کوئی پیچھے
کوئی آگے
چھوری گوری کسی کی چاہت
کسی کی خواہش عمر میں چھوٹی
تِکہ تِکہ بوٹی بوٹی
مانگیں گے سارے بازاری
مت لے جاؤ دل کی بھٹی
خواب بریدہ
خاک میں لتھڑے
اعضاء ٹیڑھے، صورت بھَدی
چھوڑو یہ سب کر دی ودی
عورت لے لو
شاپنگ مال میں یہ آواز لگا کر دیکھو
اس کے نازک ماس کے گاہک سب آئیں گے
خواب اٹھائے کیا پھِرتے ہو
خواب کے گاہک کب آئیں گے

دانیال طریر

No comments:

Post a Comment