Monday, 5 October 2015

دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایہ ہے کہ میں ہوں

دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں
اک شخص مِری طرح کا آیا ہے کہ میں ہوں
سب جیسا ہوں لیکن مِرے تصویر گروں نے
چہرہ مِرا اس رُخ سے بنایا ہے کہ میں ہوں
کیا نیند تھی وہ اپنے نہ ہونے کے نشے کی
کیوں یہ مِرے ہونے نے بتایا ہے کہ میں ہوں
میں ہوں کہ ہیں موجود مِرے دیکھنے والے
خود مجھ کو تو کم کم نظر آیا ہے کہ میں ہوں
میں اس میں مگن، وہم ہے یا خواب ہے ہستی
لوگوں نے مگر دام بچھایا ہے کہ میں ہوں
دیکھوں تو مِرے عکس سے کیا کہتا ہے دریا
پَل بھر کو  تو لہروں نے بتایا ہے کہ میں ہوں
کچھ کم تو نہیں یہ مِرے ہونے کی گواہی
اس جرم میں کس کس نے ستایا ہے کہ میں ہوں 

رضی اختر شوق

No comments:

Post a Comment