Wednesday 28 December 2016

ٹوٹے دل کا ملال کر لوں کیا

ٹوٹے دل کا ملال کر لوں کیا
ربط پھر سے بحال کر لوں کیا
یار مجھ کو اگر اجازت دے
میں بھی تھوڑی دھمال کر لوں کیا
کھو کہ خود کو میں ذات میں تیری
عشق اپنا کمال کر لوں کیا
دیکھ کر شمع جس کو شرمائے
دل کو شعلہ مثال کر لوں کیا
میرے دل میں بہت سے خدشے ہیں
تُو کہے تو سوال کر لوں کیا
زخم ہے آپ کی عطا لیکن
زخم کا اِندمال کر لوں کیا

اسد لکھنوی

No comments:

Post a Comment