ٹوٹے دل کا ملال کر لوں کیا
ربط پھر سے بحال کر لوں کیا
یار مجھ کو اگر اجازت دے
میں بھی تھوڑی دھمال کر لوں کیا
کھو کہ خود کو میں ذات میں تیری
دیکھ کر شمع جس کو شرمائے
دل کو شعلہ مثال کر لوں کیا
میرے دل میں بہت سے خدشے ہیں
تُو کہے تو سوال کر لوں کیا
زخم ہے آپ کی عطا لیکن
زخم کا اِندمال کر لوں کیا
اسد لکھنوی
No comments:
Post a Comment