دل مِرے سینے میں کچھ روز کا مہمان سا ہے
اس نئی سوچ سے مجھ کو ذرا خفقان سا ہے
ملتفت جو نہیں ہوتا تھا کبھی میری طرف
وہ مِرا دشمنِ جاں، مجھ پہ مہربان سا ہے
خون آشامی میں اس کا نہیں ثانی کوئی
دل کا کیا پوچھتے ہو دل تو ہے پاگل پھر بھی
اپنی ناکردہ خطاؤں پہ پشیمان سا ہے
جانے کس طور سے آئے گا سکوں سینے میں
حشر برپا ہے، تلاطم سا ہے، طوفان سا ہے
لفظ یہ زندہ ہیں، جب تک، ہے مِرا نام و نشاں
مجھ کو اس بات کا ادراک ہے، عرفان سا ہے
جو نہ دیکھا تھا کبھی دیکھ رہا ہے ناصرؔ
ہاں مگر رنگِ جہاں دیکھ کے حیران سا ہے
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment