Tuesday, 27 December 2016

عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں

عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں
بذکرِ حور للچایا گیا ہوں
بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت
جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں
تصور سے بنایا پیکرِ گل
کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں
خودی کی جستجو، اللہ توبہ
بہت کھویا تو کچھ پایا گیا ہوں
پریشانی مرے دل کی یہی ہے
خِرد کے ساتھ الجھایا گیا ہوں
اسی صورت اٹھا مٹی میں مل کر
میں کس مٹی کا بنوایا گیا ہوں
نہیں میں واقفِ شہرِ خموشاں
نظؔر پہلی دفعہ لایا گیا ہوں

نظر لکھنوی​
(محمد عبدالحمید صدیقی)

No comments:

Post a Comment