Tuesday 27 December 2016

یہ حالت ہو گئی ضبط فغاں سے

یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے
پھُنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے
بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے
اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے
ہوا خونِ تمنا،۔ اشک نکلے
کہاں کی بات ظاہر ہے کہاں سے
انہیں مائل کیا میں نے وفا پر
کہ تارے توڑ لایا آسماں سے
غموں کی چوٹ سے آنسو نہ نکلیں
وہ دل پتھر کا میں لاؤں کہاں سے
نظؔر آتے ہیں وہ حیراں پشیماں
سنایا تھا ابھی کچھ داستاں سے

نظر لکھنوی​
(محمد عبدالحمید صدیقی)

No comments:

Post a Comment