Tuesday 27 December 2016

میرے لہو میں دیے جس کے خوں کے جلتے ہیں

بابل 

میرے لہو میں دِیے جس کے خوں کے جلتے ہیں
نقوش جس کے میرے خال و خد میں ڈھلتے ہیں
مہک سے جس کی گل و لالہ مجھ میں کھلتے ہیں
میری ہنسی میں سبھی رنگ اس کے ملتے ہیں

وہ جس کی تھام کے انگلی کو چلنا سیکھا تھا
قلم سے اس کے ہی میں نے یہ لکھنا سیکھا تھا
وہ جس نے پڑھنا مجھے حرف حرف سکھلایا
وہ جس نے چڑھنا مجھے زینہ زینہ سکھلایا

وہ جس نے مان دیئے سب شرارتوں کے مجھے
جواب جس نے دیئے سب بجھارتوں کے مجھے
قرینے جس نے سکھائے جسارتوں کے مجھے
دیئے معانی لہو کی حرارتوں کے مجھے

وہ جس کی بات کا درجہ تھا اک قسم کی طرح
وہ جس جبیں پہ لگیں بل مجھے کرم کی طرح
وہ جس کے گھر کی ہے چوکھٹ مجھے حرم کی طرح
جدائی جس کی ہے پیہم مجھے الم کی طرح

وہ جس کے سجدوں کی تاثیر زندگی میری
ہیں رنگ جس کی دعاؤں کے ہر خوشی میری
اسی کا نور ہے آنکھوں کی روشنی میری
اُسی کے دم سے ہے قائم یہ چاندنی میری

اسی کے رنگ میں جذبے ہیں سب نہائے ہوئے
کہ شفقتوں کا عَلم جاں مِری اٹھائے ہوئے
یہ میرا علم و ہنر سر کو ہے جھکائے ہوئے
ہیں جس کے دم سے سبھی حرف جگمگائے ہوئے

میرے کلام میں بابل وہ استعارہ ہے
مجھے صدؔف جو مِری زندگی سے پیارا ہے​

صدف مرزا

No comments:

Post a Comment