چلو اک نظم لکھتے ہیں
چلو ہم دونوں مل کر آج کوئی نظم لکھتے ہیں
سنیرے پانیوں پر اک سنہری نظم لکھتے ہیں
اک ایسی نظم جس میں
آسمانی جھیل کے پانی کی نیلاہٹ
ہماری نظم کے پاؤں
کسی شفاف پانی کو بھی شرما دیں
ہماری نظم نیلے جَل کے نیلے پانیوں میں جل پری سی تیر سکتی ہو
جو اک پَل میں بہت لمبی مسافت پیر سکتی ہو
ہماری نظم کی آنکهوں میں اب ہلکورے لیتا ہے
وہی پانی
کہ جو روزِ ازل سے آج تک بہتا چلا آئے
کسی مواج بحرِ بے کراں سے
دیے ہم نے جلائے تهے اسی پانی میں خوابوں کے
مگر خوابوں کی تعبیریں بہت کم سچی ہوتی ہیں
مجھے خوابوں سے یاد آیا
کہ خوابوں میں بہت ہی خوب صورت خواب ہے خوابِ محبت
کدھر کو چل دیئے اٹھ کر
ابھی تو نظم پوری بھی نہ ہو پائی
ذرا ٹھہرو
ٹھہرنا جو نہیں ممکن
چلو اس نظم کو ہم موڑ دیتے ہیں
ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
صدف مرزا
No comments:
Post a Comment