Tuesday 27 December 2016

چلو اک نظم لکھتے ہیں

چلو اک نظم لکھتے ہیں
چلو ہم دونوں مل کر آج کوئی نظم لکھتے ہیں
سنیرے پانیوں پر اک سنہری نظم لکھتے ہیں
اک ایسی نظم جس میں 
آسمانی جھیل کے پانی کی نیلاہٹ
شفق گوں آسماں کی لالیوں کے عکس ٹھہرے ہوں
ہماری نظم کے پاؤں
کسی شفاف پانی کو بھی شرما دیں
ہماری نظم نیلے جَل کے نیلے پانیوں میں جل پری سی تیر سکتی ہو
جو اک پَل میں بہت لمبی مسافت پیر سکتی ہو
ہماری نظم کی آنکهوں میں اب ہلکورے لیتا ہے
وہی پانی 
کہ جو روزِ ازل سے آج تک بہتا چلا آئے 
کسی مواج بحرِ بے کراں سے 
دیے ہم نے جلائے تهے اسی پانی میں خوابوں کے
مگر خوابوں کی تعبیریں بہت کم سچی ہوتی ہیں
مجھے خوابوں سے یاد آیا
کہ خوابوں میں بہت ہی خوب صورت خواب ہے  خوابِ محبت 
کدھر کو چل دیئے اٹھ کر 
ابھی تو نظم پوری بھی نہ ہو پائی
ذرا ٹھہرو 
ٹھہرنا جو نہیں ممکن 
چلو اس نظم کو ہم موڑ دیتے ہیں 
ادھورا چھوڑ دیتے ہیں

صدف مرزا

No comments:

Post a Comment