پی چکے تھے زہرِ غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا
پھر کسی تمنا نے سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
سر میں جو بھی تھا سودا اڑ گیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں نیم جاں شکستہ دل خستہ پا
میرے گھر تک آتے ہی کیوں جدا ہوئی تجھ سے کچھ بتا
سب کھڑے تھے آنگن میں اور مجھ کو تکتے تھے، بار بار
گھر سے جب میں نکلا تھا مجھ کو روکنے والا کون تھا
جوش گھٹتا جاتا تھا ٹوٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے بانؔی دوڑتا سا جاتا تھا راستا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment