Wednesday 28 December 2016

پی چکے تھے زہر غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا

پی چکے تھے زہرِ غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا
پھر کسی تمنا نے سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
سر میں جو بھی تھا سودا اڑ گیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں نیم جاں شکستہ دل خستہ پا
میرے گھر تک آتے ہی کیوں جدا ہوئی تجھ سے کچھ بتا
ایک اور آہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے اے صبا
سب کھڑے تھے آنگن میں اور مجھ کو تکتے تھے، بار بار
گھر سے جب میں نکلا تھا مجھ کو روکنے والا کون تھا
جوش گھٹتا جاتا تھا ٹوٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے بانؔی دوڑتا سا جاتا تھا راستا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment