Wednesday 28 December 2016

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جاۓ گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پسِ کہسار ڈھلتا جائے گا
بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا
راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا
اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مِرے ہمراہ چلتا جائے گا
چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دِیے کو اب جلادوں گا وہ جلتا جائے گا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment