آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جاۓ گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا
راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا
اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مِرے ہمراہ چلتا جائے گا
چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دِیے کو اب جلادوں گا وہ جلتا جائے گا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment