Wednesday 28 December 2016

دل فرط مسرت سے مرا جھوم اٹھا ہے

دل فرطِ مسرت سے مِرا جھوم اٹھا ہے
اب عالمِ تنہائی کا ہم راز ملا ہے
تہذیب و تمدن کی بہاروں کو جلا ہے
شوریدہ زمیں پر بھی جہاں پھول کھلا ہے
ہم کو یہ سبق روزِ ازل سے ہی ملا ہے
اک ذاتِ خدا، باقی ہر اک چیز فنا ہے
دل ہے کہ ہر اک لمحہ مِرا ٹوٹ رہا ہے
تھا ناز بہت جس پہ وہی آج خفا ہے
انگشت نمائی مِرے کردار پہ کر کے
دشمن مِرا ہر گام پشیمان ہوا ہے
نادان یہاں آتے ہی بن جاتے ہیں دانا
اس محفل خوشرنگ کی تہذیب جدا ہے
دل میں بھی ہے موجود رگِ جاں سے بھی نزدیک
جس سمت نظر ڈالئے وہ جلوہ نما ہے
اک جرمِ محبت کو بھی بخشا نہ جہاں نے
رسوا سرِ بازار مجھے خوب کیا ہے
افشاں نہ کبھی ہوتا مِرا رازِ محبت
اک تیرے تبسم کا ہی افسانہ بنا ہے
اﷲ بچائے نظرِ بد سے ہمیشہ
ہاتھوں پہ تِرے رنگِ حنا خوب چڑھا ہے
ساحل پہ کھڑا رہ کے بھی پانی سے رہا دور
ہے کون، لبِ دریا جو پیاسا ہی مرا ہے
کیا رکھا ہے بیکار کی باتوں میں اے عابدؔ
’’کہہ دو یہ ہوا کچھ نہیں دو دن کی ہوا ہے‘‘

عابد حسین عابد

No comments:

Post a Comment