روح میں تُو نے کیسا درد اتارا ہے
ہر موسم میں دل بے چین ہمارا ہے
سانس اکھڑنے تک لڑنا ہے لہروں سے
خوف نہیں، اور کتنی دور کنارا ہے
دیپ کی صورت رات جلی ہیں آنکھیں بھی
جاتے جاتے سورج سایہ چھین گیا
اس کے سوا بستی میں کون ہمارا ہے
اک مدت سے تیر رہا ہے آنکھوں میں
میں حیران میں پانی ہے یا پارا ہے
غور سے ہم کو دیکھنے والے، تُو نے آج
سوکھی جھیل میں بھاری پتھر مارا ہے
عابد حسین عابد
No comments:
Post a Comment