Tuesday, 27 December 2016

ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا

ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا
جیسے کہ وہ کبھی کا مِرا آشیانہ تھا
سارے بدن پہ آگ کی لپٹیں سوار تھیں
دریا میں کودنے کے سوا راستہ نہ تھا
اک دوسرے سے دور رہے ہم تمام عمر
ویسے ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ تھا
خوابوں کے پر جلے ہوئے بکھرے تھے چار سُو
اخبار کہہ رہا ہے کوئی گھر جلا نہ تھا
ہم اپنے غم کدے سے نکلتے تو کس طرح
تالے پڑے ہوئے تھے کوئی در کھلا نہ تھا
کتنا عظیم شخص ہے ہر غم کے باوجود
یوں ہنس رہا ہے جیسے کبھی کچھ ہوا نہ تھا
وہ دن بھی یاد ہے کہ اسی شہر میں شمیؔم
میں کھو گیا تھا، اور کوئی ڈھونڈتا نہ تھا

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment