Wednesday 28 December 2016

تو وہی ترا شباب وہی

تُو وہی،۔۔ تِرا شباب وہی
کیوں نہ ہو مجھ کو اضطراب وہی
ظاہراً جس کو ہو گی ناکامی
ہو گا الفت میں کامیاب وہی
دیکھتی ہیں تِری نگاہیں کیا
ہے مِرا عالمِ خراب وہی
فرق ساقی کی ہے نگاہوں کا
ورنہ ساغر وہی، شراب وہی
لاکھ الفت کے باوجود اب تک
تجھ کو مجھ سے ہے اجتناب وہی
نگہِ استعجاب کیا دیکھے
تیرے جلوے وہی، نقاب وہی
ہم ہی شاید بدل گئے بہزاؔد
ورنہ ہر سمت ہے شباب وہی

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment