میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مِرے فردوسِ جواں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوشِ نیام
پھول کے گِرد فرو باغ میں مانند نسیم
مثلِ پروانہ کسی شمعِ تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئی
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسنِ یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment