کیسے بتائیں "حسن" اس کا بس اسی پر ختم ہے
اس داستاں کی ہر کہانی اس "پری" پر ختم ہے
دو کپ ہیں چاۓ سے بھرے اک میز پر رکھے ہوۓ
دو کرسیاں خالی ہیں، اور منظر "اسی" پر ختم ہے
ایسی خوشی جو عمر بھر ڈھونڈے سے بھی ملتی نہیں
برجِ خلیفہ پر سے جھک کر شہرِ دل کو دیکھنا
اور یاد رکھنا وہ گلی جو "جھونپڑی" پر ختم ہے
اک شخص چلتا جا رہا ہے ریلوے لائن کے ساتھ
کرنے کوئی ایسا سفر جو "روشنی" پر ختم ہے
اک وہ محبت تھی جو کالج میں کیا کرتے تھے ہم
اک یہ محبت ہے جو "یونیورسٹی" پر ختم ہے
فیضان ہاشمی
No comments:
Post a Comment