سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں
زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں
باتیں "محبتوں" کی مرے سامنے نہ کر
تُو جانتا بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں
پاگل کیا ہے "عشق" نے، آدھا جو رہ گیا
پھر میرا ٹھیک ہونے کو دل ہی نہیں کیا
اس نے مجھے کہا تھا میں اچھا مریض ہوں
وہ خوش ہے میری ظاہری حالت کو دیکھ کر
اس کو خبر نہیں کہ میں کتنا مریض ہوں
تم دوستوں کے واسطے بے شک بڑا سہی
اس کی نظر میں میں ابھی چھوٹا مریض ہوں
پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص
آزارِ آگہی" کا میں "چوتھا" مریض ہوں"
اس نے حسیب مجھ کو "مسیحا" سمجھ لیا
میں نے ہزار بار کہا تھا "مریض ہوں"
حسیب الحسن
No comments:
Post a Comment