Friday, 3 July 2020

زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں

سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں
زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں
باتیں "محبتوں" کی مرے سامنے نہ کر
تُو جانتا بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں
پاگل کیا ہے "عشق" نے، آدھا جو رہ گیا
اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں
پھر میرا ٹھیک ہونے کو دل ہی نہیں کیا
اس نے مجھے کہا تھا میں اچھا مریض ہوں
وہ خوش ہے میری ظاہری حالت کو دیکھ کر
اس کو خبر نہیں کہ میں کتنا مریض ہوں
تم دوستوں کے واسطے بے شک بڑا سہی
اس کی نظر میں میں ابھی چھوٹا مریض ہوں
پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص
آزارِ آگہی" کا میں "چوتھا" مریض ہوں"
اس نے حسیب مجھ کو "مسیحا" سمجھ لیا
میں نے ہزار بار کہا تھا "مریض ہوں"

حسیب الحسن

No comments:

Post a Comment