ہمارا ذکر "کسی" کی زباں تک آ گیا تھا
وہ نفع چھوڑ کے آخر زیاں تک آ گیا تھا
دعا کے ساتھ میں اشکوں کے ہار بھیجتا تھا
کہ صبر ٹوٹ کے آہ و فغاں تک آ گیا تھا
ہمارے دل سے "پری زاد" پیٹتے نکلے
ہمارے پاس سہولت تھی غم نچوڑنے کی
سو زخم سوکھ کے جلدی نشاں تک آ گیا تھا
تِرا "یزید" کہاں تھا؟، خدا بچانے میں
مِرا "حسین" تو نوکِ سناں تک آ گیا تھا
اب اس سے بڑھ کر اسے اور کیا خسارا ہو
یقین ٹوٹ کے واپس گماں تک آ گیا تھا
حسیب الحسن
No comments:
Post a Comment