مسکراتا بھی ہوں اور آنکھ بھی نم رکھتا ہوں
اب مسرت میں اداسی کو بھی ضم رکھتا ہوں
پوچھتے کیا ہو "مِری" تنگئ داماں کا سبب
دینے والے کی سخاوت کا بھرم رکھتا ہوں
یوں تِرے "ہجر" میں کرتا ہوں علاجِ بسمل
جس کو تُو چھوڑے مِرا اس سے تعلق کیسا
اس لیے خود سے بھی اب رابطہ کم رکھتا ہوں
بڑھ کے "منزل" مجھے سینے سے لگا لیتی ہے
میں کہ جس راہ پہ دو چار "قدم" رکھتا ہوں
جھلملانے لگے قرطاس پہ لفظوں کے دِیے
تیرگی چھٹنے لگی، اب میں "قلم" رکھتا ہوں
اطیب جاذل
No comments:
Post a Comment