اس کو مجھ سے حجاب سا کیا ہے
آئینے میں سراب سا کیا ہے
آنکھ نشے میں مست سی کیوں ہے
رخ پہ زہرِ شباب سا کیا ہے
گھر میں کوئی مکیں نہیں لیکن
کوئی تھا، اب نہیں ہے اور میں ہوں
سوچتا ہوں یہ خواب سا کیا ہے
شام ہے، شہر ہے، فصیلیں ہیں
دل میں پھر اضطراب سا کیا ہے
اے منیر اس زمیں کے سر پر
آسماں کا عذاب سا کیا ہے
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment