ترا ہجر گوارا کر لوں کیا
خود سے بھی کنارا کرلوں کیا
ہر سَمت اداسی چھائی ہے
میں عشق دوبارا کر لو ں کیا
الہام نہیں، الحاد سہی
اک لفظ شرارا کرلوں کیا
نیلام ہوئے سب لوح و قلم
خوابوں پہ گزارا کر لوں کیا
قطرہ ہی تو قلزم ہوتا ہے
اک آخری چارا کر لوں کیا
یہ گمراہی، یہ تِیرہ شبی
ہر اشک ستارا کر لوں کیا
ان خون سے سینچی غزلوں میں
میں ذکر تمہارا کر لوں کیا
شاہین کاظمی
No comments:
Post a Comment