Thursday, 17 December 2020

وفا کی آس میں دل دے کے پچھتایا نہیں کرتے

 وفا کی آس میں دل دے کے پچھتایا نہیں کرتے

یہ نخلِ آرزو ہے، اس میں پھل آیا نہیں کرتے

خیالوں میں جب آتے ہیں تو پہروں جا نہیں پاتے

ہم اب بے وصل تنہائی بھی گھبرایا نہیں کرتے

ہماری نیند سے کیا واسطہ ہے ان کی نیندوں کو

سنا ہے وہ بھی اب آرام فرمایا نہیں کرتے

ذرا سے کیا پیام آتا ہے دشمن جل کے مرتے ہیں

خدا کا شکر ہے وہ خود ادھر آیا نہیں کرتے

نہ تم آؤ، نہ نیند آئے، نہ ہی کم بخت موت آئے

یہ کیسی کشمکش ہے یوں بھی تڑپایا نہیں کرتے

ہماری تشنگیٔ دید اک دن رنگ لائے گی

شہیدوں کی قسم پیاسوں کو ترسایا نہیں کرتے

ہمارے گرد جو پھرتے تھے خوشحالی کے عالم میں

شکایت کیا کہ تاج اب بھول کر آیا نہیں کرتے


ریاست علی تاج

No comments:

Post a Comment