کبھی کیے نہیں دنیا سے مشورے میں نے
ہمیشہ دل سے ہی سلجھائے مسئلے میں نے
ستم نے لاکھ گرایا زمانہ شاہد ہے
ہر اک زوال کو بدلا عروج سے میں نے
یہ مفلسی مرے نقش و نگار چاٹ گئی
اٹھا کے رکھ دیئے جتنے تھے آئینے میں نے
وہ جا چکا پر آنکھیں ہیں پلیٹ فارم میں قید
کیا ہے دل سے نہ رخصت کبھی اسے میں نے
آپ آئے ہیں مرے گھر پوچھنے طبیعت کو
کیا نہ شکوۂ بے داد آپ سے میں نے
بہار آئی، گلستاں میں کھل اٹھے غنچے
ہر ایک پھول کو سینچا ہے خون سے میں نے
قدم رکے، نہ کہیں پیاس پر گری اپنی
کبھی نہ پست کیے اپنے حوصلے میں نے
کرن ناز
No comments:
Post a Comment