خیال گر سے جو لفظ گر ہے کہیں زیادہ
کمال یہ ہے وہ معتبر ہے کہیں زیادہ
مری نظر میں اے شعبدہ گر تری کہانی
ترے گماں سے بھی مختصر ہے کہیں زیادہ
نجانے کس کی جوان شہ رگ کا خون ہے یہ
عدو کا چہرہ لہو میں تر ہے کہیں زیادہ
ہے اب جو موسم وہ ظرف کے امتحان کا ہے
شجر کی امید سے ثمر ہے کہیں زیادہ
ترے خیالوں نے اب کیا ہے شروع جس کو
مرے تخیل کا وہ سفر ہے کہیں زیادہ
بدن سے ہم نے ڈھکا ہوا ہے چراغِ جاں کو
ہوا سے مہلک بری نظر ہے کہیں زیادہ
حسن ہے میزان میں توازن تو کس لیے پھر
ادھر جو کم ہے وہ کیوں ادھر ہے کہیں زیادہ
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment