Thursday, 17 December 2020

خیال گر سے جو لفظ گر ہے کہیں زیادہ

 خیال گر سے جو لفظ گر ہے کہیں زیادہ

کمال یہ ہے وہ معتبر ہے کہیں زیادہ

مری نظر میں اے شعبدہ گر تری کہانی

ترے گماں سے بھی مختصر ہے کہیں زیادہ

نجانے کس کی جوان شہ رگ کا خون ہے یہ

عدو کا چہرہ لہو میں تر ہے کہیں زیادہ

ہے اب جو موسم وہ ظرف کے امتحان کا ہے

شجر کی امید سے ثمر ہے کہیں زیادہ

ترے خیالوں نے اب کیا ہے شروع جس کو

مرے تخیل کا وہ سفر ہے کہیں زیادہ

بدن سے ہم نے ڈھکا ہوا ہے چراغِ جاں کو

ہوا سے مہلک بری نظر ہے کہیں زیادہ

حسن ہے میزان میں توازن تو کس لیے پھر

ادھر جو کم ہے وہ کیوں ادھر ہے کہیں زیادہ


احتشام حسن

No comments:

Post a Comment