یہ نہیں کہ اس پہ کہا اثر نہیں کر رہا
وہ تو کوئی کام بھی سوچ کر نہیں کر رہا
تِرے فیصلوں ہر کوئی بھی شہر میں خوش نہیں
میں یہ بات اپنے ہی طور پر نہیں کر رہا
میں خود اپنی مرضی سے کر رہا ہو یہ خود کشی
میں یہ فیصلہ کسی جبر پر نہیں کر رہا
تو گزر بسر نہیں کے لیے نہ خود عذاب دے
تِرے سامنے میں گزر بسر نہیں کر رہا
نہیں بے خبر مِرے حال سے تو مِرا خدا
مِرے حال پہ گو ابھی نظر نہیں کر رہا
یہ حقیقتیں ہیں جو کر رہا ہوں بیان میں
کسی راز سے تجھے باخبر نہیں کررہا
اکرم ناصر
No comments:
Post a Comment