Friday, 18 December 2020

جاں کو آفات نہ آفات کو جاں چھوڑتی ہے

 جاں کو آفات نہ آفات کو جاں چھوڑتی ہے

مجھ کو اب بھی تیری امید کہاں چھوڑتی ہے

زندگی! تیرا تذبذب تو مری جاں لے گا

تیر کو چھوڑتی ہے نہ تُو کماں چھوڑتی ہے

ہائے کیا آگ تھی وہ جس میں گئی جاں اس کی

مرنے والے کی لحد اب بھی دھواں چھوڑتی ہے

میں تجھے چھوڑ کے آیا ہوں اسی حوصلے سے

وہ کہ جس حوصلے سے جسم کو جاں چھوڑتی ہے

وہ جہاں سے نہ کوئی لوٹ کے آیا واپس

یہ شبِ ہجر مجھے روز وہاں چھوڑتی ہے

اتنے آسیب کہاں جھیل سکوں گا تنہا

یاد! اب تُو بھی میرا شہرِ زیاں چھوڑتی ہے

سوچتا ہوں کہ کسی دشت کو چل نکلوں میں

اب تو تنہائی بھی یارو یہ مکاں چھوڑتی ہے

آؤ دیکھو میرے چہرے کے خد و خال کو اب

مان جاؤ گے، محبت بھی نشاں چھوڑتی ہے

موت جس دام کہے، سانس تھما دے قائم

اب خریدار کسی لمحے دکاں چھوڑتی ہے


علی قائم نقوی

No comments:

Post a Comment