جئے تھے یاد میں جن کی دیے جلاتے ہوئے
گزر گئے وہ نظر سے نظر بچاتے ہوئے
بغور دیکھ رہی تھی میں اپنے ہاتھوں کو
الجھ گیا مری زلفوں سے جب وہ جاتے ہوئے
وہ لفظ اب بھی مری زندگی کا حاصل ہیں
کہے تھے اس نے جو کانوں میں گنگناتے ہوئے
بجز غبار نہیں ہے کوئی شریک سفر
پہنچ ہی جائیں گے منزل پہ لڑکھڑاتے ہوئے
میں آسماں تھی انا توڑ کر زمین بنی
کیا تھا فخر تجھے آسماں بناتے ہوئے
پلٹ کے آئے گا الوینہ وہ کبھی نہ کبھی
یہ سوچتی ہوں میں دیوار و در سجاتے ہوئے
الوینہ چیمہ
No comments:
Post a Comment