زیست آنکھوں میں حسیں خواب سجاتے گزری
روٹھے روٹھے تھے جو پل ان کو مناتے گزری
زندگی نے کبھی اپنا مجھے ہونے نہ دیا
عمر رشتوں کے تقاضے ہی نبھاتے گزری
خشک کرتے رہے آنکھوں کا سمندر اکثر
خود کو بے وجہ سی باتوں پہ ہنساتے گزری
لکھ دیا تھا جسے تقدیر نے برسوں پہلے
اپنے حصے کا وہ کردار نبھاتے گزری
کیا کہیں، زندگی کس طور بِتائی یارو
شب کی تنہائی میں بس اشک بہاتے گزری
گوہر سیما
No comments:
Post a Comment