Friday, 18 December 2020

زیست آنکھوں میں حسیں خواب سجاتے گزری

 زیست آنکھوں میں حسیں خواب سجاتے گزری

روٹھے روٹھے تھے جو پل ان کو مناتے گزری

زندگی نے کبھی اپنا مجھے ہونے نہ دیا

عمر رشتوں کے تقاضے ہی نبھاتے گزری

خشک کرتے رہے آنکھوں کا سمندر اکثر

خود کو بے وجہ سی باتوں پہ ہنساتے گزری

لکھ دیا تھا جسے تقدیر نے برسوں پہلے

اپنے حصے کا وہ کردار نبھاتے گزری

کیا کہیں، زندگی کس طور بِتائی یارو

شب کی تنہائی میں بس اشک بہاتے گزری


گوہر سیما

No comments:

Post a Comment