Friday, 18 December 2020

یہ تو آئین گلستاں ہے بدل سکتا نہیں

 یہ تو آئینِ گلستاں ہے بدل سکتا نہیں

ٹہنیوں میں زہر ہو تو پیڑ پھل سکتا نہیں

آئینے میں عکس ہے اس کی امانت، اور میں

کر نہیں سکتا خیانت، آنکھ مل سکتا نہیں

میں فقط شب کا نہیں، دن کا مسافر بھی تو ہوں

چاند میرے ساتھ اتنی دیر چل سکتا نہیں

استقامت مانگتا ہے پُل صراطِ دوستی

ڈگمگا جاتا ہے جو پھر وہ سنبھل سکتا نہیں

سنگ میں سوراخ کردیتا ہے پانی کا وجود

حدتِ خورشید سے پتھر پگھل سکتا نہیں

وہ پرندہ کیا اڑے گا وسعتوں کی کھوج میں

آشیاں تک سے جو مرضی سے نکل سکتا نہیں

ہو نہ مشاقی اگر غواص کے اطوار میں

کوئی موتی بحر کی تہہ سے اچھل سکتا نہیں

کھینچ کر دل لے گئی فیروز، شاہیں کی ادا

کہ عطا کردہ غذاؤں پر وہ پَل سکتا نہیں


فیروز شاہ

No comments:

Post a Comment