عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
واقفِ علمِ تفریق و تقسیم سن
شرق تا غرب سب فاصلے کھینچ دے
تا ابد تیرے حملے کے چرچے رہیں
وہ طوالت بھرے سلسلے کھینچ دے
طائرانہ صلاحیّتیں آزما
آج سے کچھ نئے مرحلے کھینچ دے
چاہتا ہوں کربل کی تاریخ لکھ
ہر طرف موت کے ہاشیے کھینچ دے
زندگی موت یا خود کشی جو بھی ہو
ان کو ترتیب دے ان کی تنظیم کر
بھاگ ایسے کسی کو نظر تک نہ آ
بادِ صر صر کو ٹکڑوں میں تقسیم کر
وادئ کربلا کو جلا بخش دے
یہ زمیں سخت بنجر ہے زرخیز کر
اس کے سینے میں اپنے قدم گاڑ دے
خون بھی مانگتی ہے تو لبریز کر
بجلیاں بھی تِرا راستہ چھوڑ دیں
اپنی رفتار کو اس قدر تیز کر
تیرے قدموں سے مٹی بھی اڑتی ہے تو
اس کا ایک ایک ذرہ لہو بیز کر
ہر طرف سے جو تیروں کی برسات ہے
تجھ کو منظور ہے اور مجھے راس ہے
ایسی پروازکر مجھ کو ایسا لگے
میں اکیلا نہیں ساتھ عباس ہے
نصرت عارفین
No comments:
Post a Comment