Monday, 15 February 2021

ذرا سی دیر جو خوف دوام ختم ہوا

 ذرا سی دیر جو خوفِ دوام ختم ہوا

نہ یہ سمجھ کہ یہ ہُو کا مقام ختم ہوا

کہاں گیا جرسِ کربلا بُلا کے مجھے

کہ راستے میں مِرا گھر تمام ختم ہوا

نہ تیری پیاس نے دریاؤں سے ہی بیعت کی

نہ پانیوں پہ لکھا تیرا نام ختم ہوا

درخت سارے سمیٹے ہوئے ہیں شاخِ خلوص

چلو کہ پہلے سفر کا قیام ختم ہوا

چُنے گا سوختہ خیموں کی راکھ اور کوئی

لگا کے آگ ہواؤں کا کام ختم ہوا

سرِ افق کوئی تارا، نہ بے نوا کوئی چیخ

یہ کن تباہیوں پہ رنجِ شام ختم ہوا


مصور سبزواری

No comments:

Post a Comment