Wednesday, 17 February 2021

قید کی میعاد گھٹتی جا رہی ہے

 قید کی میعاد گھٹتی جا رہی ہے

وقت کی چادر سمٹتی جا رہی ہے

روز و شب کی مستقل یکسانیت سے

کچھ طبیعت بھی اُچٹتی جا رہی ہے

دھیرے دھیرے کھُلتے جاتے ہیں دریچے

رفتہ رفتہ دُھند چھٹتی جا رہی ہے

ڈھہ رہی ہیں درمیاں کی سب فصیلیں

بیچ کی ہر کھائی پٹتی جا رہی ہے

پھیلتے جاتے ہیں سائے جیسے جیسے

دھوپ گھٹتی اور سمٹتی جا رہی ہے

ایک آدم ایک حوّا کی یہ دنیا

ان گنت خانوں میں بٹتی جا رہی ہے

سامنے کے راستے مسدود پا کر

آگہی پیچھے پلٹتی جا رہی ہے

دن نکلنا ہے نکل کر ہی رہے گا

رات کو کٹنا ہے کٹتی جا رہی ہے

راستوں کی گرد کی مانند راہی

یاسیت مجھ سے لپٹتی جا رہی ہے


محبوب راہی

No comments:

Post a Comment