ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اب تو
رات گہری ہے دکھائی نہیں دیتا اب تو
جب سے گزری ہے قیامت دل پہ
شور محشر کا سنائی نہیں دیتا اب تو
سوختہ دل کا کیا کہوں جاناں
راکھ ہو کہ بھی دُہائی نہیں دیتا اب تو
مجھ کو رکھتا ہے قیدِ فرقت میں
لاکھ مانگوں وہ رہائی نہیں دیتا اب تو
کوچۂ یار ڈھونڈیں گے کسی جنگل میں
شہر میں کچھ بھی دِکھائی نہیں دیتا اب تو
تاشفین فاروقی
No comments:
Post a Comment