بچھڑتی کونج کی چالوں میں تو نہ آیا کر
پلٹ کے میرے خیالوں میں تو نہ آیا کر
بدل چکا ہے زمانہ، صبا، کرن، خوشبو
بہت پرانے حوالوں میں تو نہ آیا کر
تجھے فلک کا حسیں پیرہن جو بخشا تھا
دھنک سی عام مثالوں میں تو نہ آیا کر
گزر چکی ہے شبِ غم یقین کرنے دے
سحر کے تیز اجالوں میں تو نہ آیا کر
تیری سرشت جدا ہے تیرے رفیقوں سے
ڈرے ڈرے سے غزالوں میں تو نہ آیا کر
سفر تھے جس کے اسی نے کہا مجھے ناطق
بلا سے پاؤں کے چھالوں میں تو نہ آیا کر
ناطق جعفری
No comments:
Post a Comment