ہر سِتم لطف ہے، دل خُوگرِ آزار کہاں
سچ کہا تم نے، مجھے غم سے سروکار کہاں
دشت و صحرا کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
کیوں بھٹکتے ہو، یہاں سایۂ دیوار کہاں
بادۂ شوق سے لبریز ہے ساغر میرا
کیسے اذکار، مجھے فرصتِ افکار کہاں
کیوں تِرے دور میں محرومِ سزا ہوں کہ مجھے
جرم پر ناز سہی، جرم سے انکار کہاں
رہروِ شوق ہے بے گانۂ منزِل، ورنہ
کوچۂ دار کہاں، کوچۂ دلدار کہاں
سوچتے کیا ہو جلاتے رہو زخمو ں کے چراغ
دیکھتے کیا ہو، ابھی صبح کے آثار کہاں
تم کو چاہا تھا، مگر تم بھی وفا دوست نہیں
دل پہ تکیہ تھا، مگر دِل بھی وفادار نہیں
یوں تو ہر گام پہ غمخوار ملے ہیں تاباں
جو مِرے غم کو سمجھ پائے، وہ غمخوار کہاں
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment