Wednesday, 17 February 2021

گلشن زیست میں گل ریز شمائل ہو جاؤ

 گلشنِ زیست میں گل ریز شمائل ہو جاؤ

آئینہ بن کے زمانہ کے مقابل ہو جاؤ

زندگی میری ہے پیچیدہ بہت پہلے ہی

عقدۂ زلف کی مانند نہ مشکل ہو جاؤ

مثلِ سیماب تمہیں کیسے تڑپتا دیکھوں

اس لیے میں نہیں کہتا کہ مِرا دل ہو جاؤ

فیصلہ کر دو تذبذب میں نہ رکّھو مجھ کو

" تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ "

کوئی طوفانِ بلا خیز ڈبو دے نہ مجھے

بے سہارا ہوں خدا کے لیے ساحل ہو جاؤ

رو کشِ حسنِ جہاں تاب کو حیراں نہ کرو

ہو سکے تو شب ہجراں مہِ کامل ہو جاؤ

چین کب مجھ کو ہے خوں گشتہ تمنّاؤں سے

مجھ کو سینہ سے لگا لو مِری منزل ہو جاؤ

چاہے ٹھکرا دو مجھے ٹوٹے کھلونے کی طرح

میری بے لوث محبّت کے تو قائل ہو جاؤ

جلوہ افروز نہ ہو چاند تو کیا لطفِ غزل

آج اک رات سہی خارجِ محمل ہو جاؤ

شمع سا جلنا تو اک رسمِ وفاداری ہے

وجہِ بیدارئ رنگینئ محفل ہو جاؤ

گو نہیں بادیہ پیمائی سے فرصت ناظر

کون کہتا ہے درِ یار سے غافل ہو جاؤ


عبداللہ ناظر

No comments:

Post a Comment