کبھی وہ زباں سے اپنے سبھی راز کھولتا ہے
کبھی رہ کے چپ وہ سب کچھ آنکھوں سے بولتا ہے
اسے کیوں رہے شکایت بھلا دوسروں سے یارو
جو سدا ہی عیب پہلے خود میں ٹٹولتا ہے
مدہوش کر دیا ہے مجھے اس کے پیار نے یوں
کہ اسی کا چہرہ ہر دم نظروں میں ڈولتا ہے
مِرے پیار اور وفا کا کوئی مول تو نہیں ہے
تُو ہر ایک شئے کو اپنی دولت سے تولتا ہے
اسے گفتگو کے لائق کوئی سمجھے بھی تو کیسے
کہ وہ جب بھی بولتا ہے تو وہ بڑھ کے بولتا ہے
جو تُو جانتا ہے پیارے کہ یہ عشق اک بلا ہے
تو کیوں اپنی زندگی میں تو یہ زہر گھولتا ہے
اسے دل یہ چاہتا ہے کہ گلے لگا لوں منظر
جب کوئی شخص مجھ سے اردو میں بولتا ہے
منظر اعظمی
No comments:
Post a Comment