کوئی منصب کوئی دستار نہیں چاہیے ہے
شاہزادی! مجھے دربار نہیں چاہیے ہے
آخری اشک سے اس سوگ کی تکمیل ہوئی
اب مجھے کوئی عزا دار نہیں چاہیے ہے
اس تکلف سے زیادہ کا طلبگار ہوں میں
صرف یہ سایۂ دیوار نہیں چاہیے ہے
اب مقابل مِرے اپنے ہیںم سو اے ربِ جلیل
حوصلہ چاہیے، تلوار🗡نہیں چاہیے ہے
چاہیے ہے مجھے انکارِ محبت مِرے دوست
لیکن اس میں تِرا انکار نہیں چاہیے ہے
آخر اعضا نے مِرے ساتھ بغاوت کر دی
اب قبیلے کو یہ سردار نہیں چاہیے ہے
احمد کامران
No comments:
Post a Comment