اب تک دلِ آوارہ کی حسرت نہیں نکلی
اس واسطے قدموں سے مسافت نہیں نکلی
پھر گردشِ حالات نے مصروف کیا ہے
پھر تم سے ملاقات کی فرصت نہیں نکلی
ہم روئے اٹھا کر جو زمیں بوس تھی دیوار
ملبے میں دبے سائے کی میت نہیں نکلی
اک بار تِرے لمس کو محسوس کیا تھا
پھر دل سے مِرے خواہشِ قربت نہیں نکلی
ٹوٹے ہوئے گھر کے در و دیوار ملے ہیں
حیرت ہے کہ ملبے سے کوئی چھت نہیں نکلی
چھینی گئی سرمایۂ جاں تھی جو محبت
بحران سے پھر دل کی معیشت نہیں نکلی
قربان کیے جس پہ حسن ہم نے شب و روز
نکلی ہے ضرورت، وہ محبت نہیں نکلی
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment