Thursday, 18 February 2021

اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا

 اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا

کیا کیا وگرنہ دل کو خسارہ نہیں ہوا

اک لفظ جس کے عجز میں اظہار دم بخود

اک نام میری آنکھ کا تارہ نہیں ہوا

وہ خواب بن کے آنکھ سے پھوٹا تو ہے مگر

اک اشک بن گیا ہے شرارہ نہیں ہوا

ہم کوزہ گر کے ہاتھ میں بھی جڑ نہیں سکے

اس بھر بھری سی خاک کا گارا نہیں ہوا

خود اعتماد شخص تھا بے اعتماد بھی

اپنا نہ بن سکا تو ہمارا نہیں ہوا

شوریدگی کے عارضے تک آ گیا فرح

اک بوجھ جو کہ دل سے اتارا نہیں ہوا


فرح خان

No comments:

Post a Comment